Thursday 11 April 2013



تبدیلی اور تضاد..
نام نہاد خادم اعلیٰ کی الیکشن کمپئن میں چند پوئنٹس کو بار بار دهرا کر عوام کو ہپناٹائز کرنے کے کوشش کی جا رهی هے مگر اللہ نے سوچنے سمجهبے کی صلاحیت اپنے سب بندوں کو عطا فرمائی هے.
آپ جانتے ہیں کے ملک کی ترقی کے لیے چند شعبے زیاده اهمیت کے حامل هیں جو یے هیں
تعلیم
صحت
انڈسٹری 
آئیں هم ٹهنڈے دل سے ان شعبوں میں شهباز شریف گورنمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیں..
1 دانش سکول، لیپ ٹاپ اور سولر پینل سکیم کی تصاویر ٹی وی اور اخبارات میں جا بجا لگائی جاتی هیں.مختلف لوگوں کے تعریفی بیانات بهی اخبارات کی زینت بنتے رہتے هیںمگر
ان میں سے کسی بهی سکیم کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو چیکنگ کے لئے نہیں دیا گیا. .
یے زکربهی نہیں هوتا کے پنجاب کے 80000.. جی هاں اسی هزار گورنمنٹ سکول بنیادی سہولتوں یعنی بلیک بورڈ، بینچز ، چار دیواری وغیره سے بهی محروم هیں.
یے  بهی سن لیں کے لیپ ٹاپ پر تقریباً 12 ارب روپے اڑا دینے والے لگ بهگ 3 ارب سے ان اسی هزار سکولوں میں پڑهنے والے کروڑوں بچوں کو بنیادی سهولتں فراهم کر سکتے تهے.
صحت:
چوہدری برادران کے دور سے اس شعبے میں پنجاب کی حالت باقی صوبوں سے بہتر رهی. ریسکیو سروس هو یا مختلف ایمرجنسیوں کی تعمیر. اس سب کے باوجود اس ایک شعبے میں شهباز شریف گورنمنٹ کی کارکردگی افسوسناک حد تک کمزور رہی..
پانچ سال میں ڈاکٹرز نے 15 هڑتالیں کیں جو کئی کئی ماه تک چلیں. ینگ ڈاکٹرز نے جہاں اپنے شعبے کی تقدیس کا جنازه نکالا وہیں پنجاب گورنمنٹ آہنی ہاتهوں سے نمٹنے کے دعوں کے باوجود کنفیوژن کا شکار رهی. یہاں تک کے عدالت کو مداخلت کر کے ہڑتال ختم کروانی پڑی. سروس سٹرکچر کا جائز مطالبہ 5 سال تک لٹکایا گی. اور اپنی گورنمنٹ کے آخری مہینوں میں اسی مطالبے کو اصولی کہہ کر مان لیا گیا. اگر یے مطالبہ جائز تها تو ایمرجنسیوں کو تالے لگوا کر هزاروں مریضوں کی جان  جانے کا انتظار کیوں کرتے رهے. اور اگر یے مطالبہ تها هی غلط تو اپنی حکومت کے اختتام پر کیوں مان لیا؟
ڈاکٹرز کی دیکها دیکهی نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف بهی روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے پایا گیا. قابلِ غور بات یے هے کہ یے اهم ترین شعبہ بهی دوسرے 18 شعبوں کی طرح شهباز شریف صاحب کے ڈائرکٹ کنٹرول میں تها.
ڈینگی کا خاتمہ وه واحد نقطہ هو گا جو یے گورنمنٹ کلیم کر سکے گی مگر سچ یہ هے کہ اسکا کریڈٹ گورنمنٹ اقدامات سے زیاده خدائی تدبیر کو جاتا هے ورنہ شہر میں کتنے جوهڑ ختم هوے.. کتنے نالے چهت سے ڈهانپے گئے اور کس کس بازار میں سپرے کیا گیا یے هم لاهورئے خوب جانتے هیں..
انڈسٹری.....
گزشتہ سالوں میں فیصل آباد اور سیالکوٹ کی انڈسٹری کے ساتھ جو کچھ
  کیا گیا وه کسی سے پوشیدہ نہیں.. یاد رهے کے شهباز شریف اسکا
قصوروار مرکز کو ٹہراتے ہیں.. مگر یے زکر نہیں کرتے کے آئن کی 18
ویں ترمیم جو 2 سال پهلے پاس کی گئی تهی صوبائ حکومتوں کو  بجلی
بنانے کی اجازت دیتی هے.. یے بهی یاد رهے کے سوا لاکه لوگوں کے
استعمال میں انے والا 32 ارب روپے کا میٹرو منصوبہ اس ترمیم کے 1
سال بعد شروع کیا گیا..
سولر پینل بانٹنے والوں نے ڈهائی ارب کی یے رقم بجلی کے کسی
منصوبے پر لگائی هوتی تو پنجاب کی دن بدن بگڑتی بجلی کی رسد میں
کچه نہ کچه بہتری تو ضرور آتی. چند هزار بچوں کی بجائے پورے
پنجاب کی 10 کروڈ آبادی کو فائدہ هوتا. اور اگر میٹرو بس والے 32
ارب لگاے جاتے تو یقیناً بجلی کی رسد میں واضح بهتری سے پورا
پنجاب اور خاص طور پر هماری انڈسٹری کو بنگلہ دیش کا رخ نہ کرنا
پڑتا

No comments:

Post a Comment